یوسف(ا.س) اور انکے بھائی (توریت : خلقت 42:1-3، 6-8، 25، 26؛ 43:2،19-34؛ 45:1-11، 25-26a، 28؛ 46:2-7)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

یوسف(ا.س) اور انکے بھائی

توریت : خلقت 42:1-3، 6-8، 25، 26؛ 43:2،19-34؛ 45:1-11، 25-26a، 28؛ 46:2-7

42:1-3، 6-8، 25، 26

آکال کے وقت یعقوب(ا.س) کو پتا لگا کی مصر میں اناج موجود ہے تو اُنہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا، ”تم لوگ یہاں بیٹھ کر کیا کر رہے ہو؟(1) مینے سنا ہے کی مصر میں اناج بک رہا ہے۔ وہاں پر جاؤ اور اناج خرید کر لاؤ تاکی ہم لوگ اُسے کھا کر زندہ رہ سکیں۔“(2) یوسف(ا.س) کے دسوں بھائی اناج خریدنے مصر گئے۔(3)

یوسف(ا.س) مصر کے گورنر بنا دیئے گئے تھے اور وہ لوگوں کو اناج کے بیچنے کی ذمہ داری بھی سنبھالے ہوئے تھے۔ جب یوسف(ا.س) کے بھائی وہاں پہنچے تو اُن سب نے جھک کر سلام کیا۔(6) جیسے ہی یوسف(ا.س) نے اپنے بھائیوں کو دیکھا تو اُنہیں پہچان لیا، لیکن یوسف(ا.س) نے انسے ایک اجنبی بن کر بڑے کڑک لہجے میں بات کری۔ اُنہوں نے اپنے بھائیوں سے پوچھا، ”تم کہاں سے آئے ہو؟“ تو اُن لوگوں نے جواب دیا، ”ہم کننان سے اناج خریدنے آئے ہیں۔“(7) یوسف(ا.س) نے اپنے بھائیوں کو پہچان لیا تھا، لیکن انکے بھائی اُن کو نہیں پہچان پائے تھے۔(8)

یوسف(ا.س) نے اپنے نوکروں سے کہہ کر انکے بوروں میں اناج بھروا دیا۔ انکے بھائیوں نے اناج کے بدلے چاندی کے سِکے دیئے، لیکن یوسف(ا.س) نے اُن سکوں کو اپنے پاس نہیں رکھا اور چپکے سے واپس انکے بوروں میں ڈلوا دیا۔ اُنہوں نے اپنے بھائیوں کو سفر کے لئے ضروری سامان بھی دیا۔(25) انکے بھائیوں نے گدھوں پر اپنا سامان لادا اور گھر کے لئے روانہ ہو گئے۔(26)

یوسف(ا.س) نے اپنے بھائیوں کو دعوت دی

43:2،19-34

جب اُن لوگوں نے مصر سے لائے ہوئے اناج کو کھا لیا تو یعقوب(ا.س) نے اپنے بیٹوں سے کہا، ”مصر جاؤ اور ہم سب کے کھانے کے لئے اناج خرید کے لاؤ۔“(2)

تو سارے بھائی یوسف(ا.س) کے گھر کے نوکروں کے ذمہ دار کے پاس گئے۔(19) اور کہا، ”ہم یہاں پہلے بھی اناج خریدنے آ چکے ہیں۔(20) ہم جب اناج خرید کے واپس گئے اور راستے میں رات گزارنے کے لئے روکے اور اپنے بوروں کو کھولا تو اُن میں چاندی کے سِکے ملے، وہ چاندی اتنے ہی وزن کی تھی جتنی ہم نے اناج خریدنے کے لیے دی تھی۔(21) ہم وہ پیسے واپس لے آئے ہیں، اور اِس بار کا اناج خریدنے کے لئے اور چاندی بھی لائے ہیں۔ ہم نہیں جانتے کی ہمارے بوروں میں چاندی کس نے ڈالی۔“(22) اسنے کہا، ”ڈرنے کی کوئی بات نہیں کیونکہ تمہارے والد کے رب نے تمہیں وہ دولت دی ہے، مجھے تمہارے اناج کے لئے چاندی مل گئی تھی۔“(23) وہاُن لوگوں کو یوسف(ا.س) کے گھر لے گیا اور پیر دھونے کے لئے پانی دیا اور انکے گدھوں کو چارہ دیا۔(24) وہلوگ یوسف(ا.س) کے لئے تُحْفَے تیار کرنے لگے، کیونکہ یوسف(ا.س) دوپہر میں آنے والے تھے اور اُن لوگوں نے سنا تھا کی وہ بھی اُن کے ساتھ کھانا کھائیں گے۔(25)

جب یوسف(ا.س) گھر واپس آئے تو اُن لوگوں نے اُن کو تُحْفَے پیش کئے اور انکے سامنے عزت سے جھکے۔(26) اُنہوں نے پوچھا، ”تم سب لوگ کیسے ہو؟ تمہارے بوڑھے والد کیسے ہیں، جن کے بارے میں تم لوگوں نے بتایا تھا؟ کیا وہ ابھی بھی زندہ ہیں؟“(27) ”جی ہاں،“ سارے بھائیوں نے ایک ساتھ جواب دیا۔ ”ہمارے والد آپ کے غلام ابھی بھی زندہ ہیں۔“ اور وہ سب انکے سامنے عزت سے جھکے۔(28) یوسف(ا.س) نے انکے بیچ میں اپنے سگے بھائی بنیامین کو دیکھا اور پوچھا، ”کیا یہ وہی سب سے چھوٹا بھائی ہے، جس کے بارے میں تم نے بتایا تھا؟“ یوسف(ا.س) نے کہا، ”الله تعالى تم پر مہربان ہو جائے میرے بیٹے۔“(29) وہاپنے چھوٹے بھائی کو دیکھ کر روہان٘سے ہو گئے اور وہاں سے جلدی سے باہر چلے گئے اور اپنے کمرے میں چھپ کر روئے۔(30) اپنے جزبات کو قابو کرنے کے بعد اُنہوں نے منہ دھویا اور باہر آ کر کھانا لگانے کا حکم دیا۔(31)

یوسف(ا.س) نے الگ بیٹھ کر کھانا کھایا۔ انکے بھائیوں نے الگ اور مصریوں نے الگ بیٹھ کے کھانا کھایا، کیونکہ مصری لوگ عبرانیوں کے ساتھ کھانا نہیں کھاتے تھے، یہ انکی شان کے خلاف تھا۔(32) یوسف(ا.س) نے اپنے بھائیوں کو اپنے سامنے انکی عمر کے حساب سے بٹھایا، سب سے بڑے سے سب سے چھوٹا۔ انکے بھائیوں نے ایک دوسرے کو بڑی حیرت سے دیکھا۔(33) جب یوسف(ا.س) کی میز پر کھانا لگایا گیا، تو بنیامین کو سب بھائیوں سے پانچ گنا زیادہ کھانا دیا گیا۔ اُن سب نے یوسف(ا.س) کے ساتھ پیٹ بھر کے کھایا پیا۔(34)

یوسف(ا.س) کا اپنے والد کے لئے پیغام

45:1-11، 25، 26a، 28

یوسف(ا.س) اپنے آپ کو روک نہیں پائے اور سبکے سامنے رَو پڑے۔ اُنہوں نے باقی سب لوگوں کو باہر جانے کا حکم دیا، تو انکے بھائیوں کو چھوڑ کر باقی سب باہر چلے گئے۔(1) تب اُنہوں نے بتایا کی وہ کون ہیں اور روتے رہے۔ انکے رونے کی آواز کو مصری لوگوں نے بھی سنا۔(2) اُنہوں نے اپنے بھائیوں سے کہا، ”مَیں تمہارا بھائی یوسف ہوں! میرے والد کیسے ہیں؟“ لیکن اُن کے بھائیوں نے جواب نہیں دیا کیونکہ وہ بہت اُلجھن میں اور بہت ڈرے ہوئے تھے۔(3) یوسف(ا.س) نے اپنے بھائیوں سے کہا، ”میرے پاس آؤ مَیں تم سے بھیک مانگتا ہوں، یہاں آؤ۔“ جب انکے بھائی انکے پاس گئے تو اُنہوں نے کہا، ”مَیں تمہارا بھائی یوسف ہوں جس کو تم نے غلام بنا کر بیچا تھا۔(4) اپنے کیے پر افسوس مت کرو اور اپنے آپ پر غصہ مت ہو۔ مجھ سے الله یہی چاہتا تھا کی مَیں یہاں تم سے پہلے آؤں اور بہت سارے لوگوں کی جان بچاؤں۔(5) یہ خطرناک آکال دو سال سے لگاتار پڑ رہا ہے اور آنے والے پانچ سال تک فصل نہیں اُگےگی۔(6) لیکن الله ربل کریم نے مجھے تم لوگوں سے پہلے بھیجا تاکی مَیں تمہارے لئے جگہ بنا سکوں اور تم سب کو نجات دِلا سکوں۔(7) وہتم سب نہیں تھے جس نے مجھے یہاں بھیجا ہے بلکہ وہ الله تعالى ہے اور وہ یہی چاہتا تھا۔ اُس نے مجھے فرعون کے والد جیسا بنا دیا ہے۔ مَیں فرعون کے پورے گھر اور پورے مصر کا گورنر ہوں۔“(8)

یوسف(ا.س) نے کہا، ”جلدی کرو اور میرے والد کے پاس جاؤ اور کہو کی انکے بیٹے یوسف نے یہ پیغام دیا ہے: ’الله تعالى نے مجھے مصر کا گورنر بنا دیا ہے، تو میرے پاس جلدی سے آئیں اور ہچکچائے نہیں۔(9) آپ اپنے بچوں، ناتی پوتوں، اور اپنے سارے جانوروں کے ساتھ میرے پاس گوشین کی زمین پر رہ سکتے ہیں۔(10) آپ کا استقبال ہے یہاں۔ آکال کے اگلے پانچ سالوں میں، مَیں آپکو بھوک مری سے بچاؤں گا۔ اِن سالوں میں آپ کا اور آپ کے گھر والوں کا کچھ بھی نہیں کھوئےگا، کوئی بھی نقصان نہیں اٹھانا پڑےگا، اور نہ ہی کچھ برباد ہوگا۔‘“(11)

انکے بھائی کننان واپس گئے اور اپنے والد کو سب بتایا۔(25) اُنہوں نے بتایا ”یوسف ابھی بھی زندہ ہے، اور وہ پورے مصر کا گورنر ہے۔“(26) یعقوب(ا.س) نے کہا، ”مَیں تم لوگوں کی اِس بات پر یقین کر سکتا ہوں کی میرا بیٹا یوسف ابھی بھی زندہ ہے۔ مَیں اُسے مرنے سے پہلے دیکھنا چاہتا ہوں۔“(28)

الله تعالى کا یعقوب(ا.س) سے وعدہ

46:2-7

رات کے دوران ایک خواب میں الله تعالى نے یعقوب(ا.س) سے بات کری اور کہا، ”یعقوب، یعقوب!“ تو اُنہوں نے جواب دیا، ”جی مَیں حاضر ہوں۔“(2) تب الله تعالى نے کہا، ”مَیں الله تعالى ہوں، تمہارے والد کا رب۔ تم مصر جانے سے مت ڈرو۔ مصر میں مَیں تم سے ایک بڑا خاندان بناؤں گا۔(3) مَیں تمہارے پاس مصر میں بھی موجود ہوں گا اور تمکو مصر سے واپس باہر نکال لاؤں گا۔ تمہارا انتقال وہیں ہوگا اور یوسف تمہارے پاس ہوگا اور وہ اپنے ہاتھوں سے تمہارا کفن-دفن کرےگا۔“(4)

تب یعقوب(ا.س) نے بیرشیبا شہر کو چھوڑا اور مصر کے سفر کے لئے روانہ ہو گئے۔ یعقوب(ا.س) کے بیٹے، اپنے والد، اپنی بیویوں، اور اپنے سب بچوں کو مصر لے کر گئے۔(5) وہ اُس سواری میں بیٹھ کر آئے تھے جو فرعون نے انکے لئے بھیجی تھی۔ وہ اپنے ساتھ اپنے مویشی اور اپنا سارا سامان بھی لے گئے۔ یعقوب(ا.س) کے ساتھ(6) انکے بیٹے، ناتی پوتے، انکی بیٹیاں، پوتیاں، اور گھر کے سارے لوگ تھے۔(7)