عبرانیوں کا سفر (توریت : ہجرت 12:33-40، 14:5-31)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

عبرانیوں کا سفر

توریت : ہجرت 12:33-40، 14:5-31

مصریوں نے عبرانیوں کو یہ کہہ کر باہر نکالا، ”ہم سب لوگ مارے جائیں گے۔“(33) تو عبرانیوں نے روٹی پکانے کے لئے گوندھا ہوا آٹا باندھا جس میں خمیر نہیں تھا اور وہ کٹورا بھی ساتھ لیا جس میں وہ روٹی پکاتے تھے۔ سب چیزوں کو اُنہوں نے ایک کپڑے میں باندھ کر اپنے کندھوں پر لاد لیا۔(34) انکے بیٹوں اور بیٹیوں نے موسیٰ(ا.س) کا حکم مانا اور اپنے مصری پڑوسیوں سے سونے اور چاندی کے سامان اور کپڑے مانگے۔(35) الله تعالى نے مصریوں کے دلوں میں عبرانیوں کے لئے مُحَبَّت پیدا کر دی تھی اِس لئے اُن لوگوں نے وہ سب دے دیا جو عبرانیوں نے انسے مانگا تھا۔ اِس طرح وہ اپنے ساتھ مصریوں کی دولت بھی لے آئے۔(36)

عبرانیوں نے ریم سیی سے لے کر سوککات تک کا سفر طے کیا۔ اُس کارواں میں چھ لاکھ بالغ آدمی اور انکے گھر والے تھے(37) اور وہ لوگ بھی تھے جو عبرانیوں کے بیچ نہیں پیدا ہوئے تھے۔ وہ لوگ اپنے ساتھ اپنی بھیڑیں، بکریاں، اور بہت ساری گائے بھی لائے تھے۔(38)

اُن لوگوں نے مصر سے لائے ہوئے آٹے سے روٹیاں بنا کر سےکی، اُس آٹے میں خمیر نہیں تھا کیونکہ اُن کو بہت جلدی مصر سے نکالا گیا تھا اور اِتنے کم وقت میں آٹے میں خمیر نہیں ملایا جا سکتا تھا۔ اُن لوگوں کے پاس اِتنا وقت بھی نہیں تھا کی وہ باقی ضرورت کا سامان اپنے ساتھ لا پاتے۔(39) عبرانی لوگ مصر میں چار سو تیس سال سے رہ رہے تھے۔(40)

سمندر میں راستا

14:5-31

جب مصر کے بادشاہ کو بتایا گیا کی سارے لوگ بھاگ گئے ہیں تو اُسکا اور اُس کے سرکاری افسروں کا ارادہ بدل گیا۔ اُنہوں نے آپس میں کہا، ”ہم نے یہ کیا کیا؟ ہم نے عبرانیوں کو اپنی غلامی سے آزاد کر دیا ہے۔“(5) فرعون نے اپنی سواری کو تیار کیا اور(6) اپنے ساتھ چھ سو سب سے اچھے رتھ لئے جس پر ایک فوجی افسر سوار تھا۔(7) فرعون ہمت سے عبرانیوں کا پیچھا کرنے نکل پڑا کیونکہ الله تعالى نے اُس کے سخت دل کو اور سخت کر دیا تھا۔(8)

فرعون اور اُس کے فوجیوں نے عبرانیوں کو فی-ہخیروٹ نام کی ایک جگہ پر سمندر کے کنارے ڈیرا ڈالے ہوئے دیکھا جو بال-سفون کے پاس تھی۔(9) جب اُن لوگوں نے فرعون کی فوج کو پاس آتا ہوا دیکھا تو وہ لوگ بہت ڈر گئے اور سمجھ گئے کی فرعون کی فوج اُن پر حملہ کرنے آ رہی ہے۔ تو اُن لوگوں نے الله تعالى کو پکارا اور پھر(10) اُنہوں نے موسیٰ.س) سے کہا، ”کیا مصر میں قبریں نہیں تھیں کی تم ہمیں یہاں ریگستان میں مرنے کے لئے لے آئے ہو؟ تم نے ہمیں مصر سے باہر کیوں نکالا ہے؟(11) جب ہم مصر میں تھے، تو کیا ہم نے تم سے نہیں کہا تھا، ہمیں اکیلا چھوڑ دو تاکی ہم مصریوں کی خدمت کر سکیں؟ ریگستان میں مرنے سے اچھا تو یہ تھا کی ہم مصریوں کی غلامی کرتے رہتے۔“(12)

موسیٰ(ا.س) نے عبرانیوں سے کہا، ”ڈرو نہیں، سکون سے کھڑے رہو، اور دیکھو کی الله تعالى تمکو بچانے کے لئے آج کیا کرتا ہے۔(13) الله تعالى تمہارے لئے لڑے گا اگر تم صبر سے کام لوگے۔ عبرانیوں، آج جو مصری لوگ تم دیکھ رہے ہو، آج کے بعد تم اُن کو نہیں دیکھو گے۔“(14)

الله تعالى نے موسیٰ(ا.س) سے کہا، ”تم مجھے کیوں پکار رہے ہو؟ عبرانیوں سے کہو کی آگے بڑھے۔(15) موسیٰ،تم اپنے ہاتھ میں اسا اُٹھا کے سمندر کی طرف بڑھو تاکی وہ بیچ سے الگ ہو جائے اور لوگ سمندر کی سوکھی زمین پر چل کر اُس پار جا سکیں۔(16) مَیں مصریوں کے دل کو اور سخت کر دوں گا تاکی وہ تم لوگوں کا پیچھا سمندر میں بھی کریں۔(17) مصریوں کو پتا لگ جائےگا کی مَیں ہی خدا ہوں۔“(18)

الله تعالى کا فرشتہ جو انکے آگے موجود تھا، انکے پیچھے آ گیا اور وہ گھنا بادل[a] جو انکے آگے تھا وہ بھی انکے پیچھے آ گیا۔(19) وہ بادل اب عبرانیوں اور مصریوں کے بیچ میں تھا۔ وہ بادل عبرانیوں کو رات بھر روشنی دیتا رہا، اسکے باوجود بھی وہاں پر رات ہی تھی اور مصری فوج عبرانیوں کے پاس تک نہیں پہنچ پائی۔(20)

جب موسیٰ(ا.س) نے اپنے ہاتھ کو آگے بڑھایا تو الله تعالى نے ایک طاقتور ہَوا سے پانی کو پیچھے کی طرف دھکیل دیا۔ سمندر دو حصوں میں الگ ہو گیا اور اُس کی سوکھی زمین دکھنے لگی۔(21) عبرانی لوگ اُس راستے پر چلنے لگے، اور پانی دونوں طرف ایک دیوار کی طرح کھڑا تھا۔(22) فرعون کی فوج اپنے گھوڑے اور سپاہیوں کے ساتھ انکے پیچھے گئے۔(23) الله تعالى نے اُن کو دیکھا اور انکی پریشانیوں کو بڑھا دیا۔(24) الله تعالى نے انکے رتھوں کو بھٹکا دیا جس کی وجہ سے ان کا رتھ چلانا اور بھی مشکل ہو گیا۔ مصریوں نے کہا، ”ہمیں عبرانیوں سے دُور بھاگنا چاہئے، کیونکہ خدا انکی طرف سے لڑ رہا ہے اور ہمارے خلاف ہو گیا ہے۔“(25)

الله تعالى نے موسیٰ(ا.س) سے کہا، ”اپنا ہاتھ سمندر کی طرف پھیلاؤ تاکی پانی اپنی جگہ پر واپس جا سکے اور مصریوں کو، انکے سپاہیوں کو، اور انکی سواریوں کو اپنے اندر ڈوبا لیں۔“(26) موسیٰ(ا.س) نے ویسا ہی کیا، اور صبح کے وقت سمندر پہلے کے جیسا ہو گیا اور اُس وقت مصری لوگ سمندر کے بیچ ہی پہنچے تھے۔ مصری لوگ سمندر کے بیچ میں الله تعالى کی طاقت سے ہار گئے۔(27)

پانی اپنی جگہ واپس چلا گیا اور مصری فوج جو ان کا پیچھا کر رہی تھی اپنی سواریوں کے ساتھ اُس کے اندر ڈوب گئیں۔ ان میں سے ایک بھی مصری آدمی زندہ نہیں بچا۔(28) عبرانی لوگ سمندر کے اندر بنے سوکھے راستے سے ہو کر باہر نکلے جس کے دونوں طرف سمندر کی دیواریں کھڑی تھیں۔(29) اِس طرح سے الله تعالى نے اُس دن عبرانیوں کو مصریوں کی غلامی سے آزاد کرایا اور عبرانیوں نے مصریوں کی لاشوں کو سمندر کے کنارے پڑا دیکھا۔(30) جب عبرانیوں نے الله تعالى کی اِس عظیم طاقت کو دیکھا جو اسنے مصریوں کے خلاف استعمال کری تھی تو لوگوں کے دلوں میں خوف پیدا ہو گیا اور وہ لوگ الله تعالى پر اور موسیٰ(ا.س) پر ایمان لے آئے۔(31)