الله رب العظیم کی سلطنت کی مثالیں (انجیل : متّا 13:24-52)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

الله رب العظیم کی سلطنت کی مثالیں

انجیل : متّا 13:24-52

عیسیٰ(ا.س) نے لوگوں کو کچھ اور مثالیں دیں۔ اُنہوں نے کہا، ”الله رب العظیم کی بادشاہت اُس آدمی کی طرح ہے کی جس نے اپنے کھیتوں میں اچھے بیج بوئے۔(24) اُس رات، جب وہ سو رہا تھا، تو اُس کے دشمن نے آ کر گیہوں کے بیچ میں جنگلی گھاس بو دی اور وہاں سے چلا گیا۔(25) کچھ وقت کے بعد گیہوں کی فصل بڑھنے لگی اور گیہوں بالیوں سے بھر گیا، لیکن اُس کے ساتھ-ساتھ وہ جنگلی گھاس بھی بڑی ہو گئی۔(26) تب اُس کھیت کے مالک کا نوکر اُس کے پاس آیا اور کہا، ’آپ نے اپنے کھیت میں تو اچھے بیج بوئے تھے تو پھر یہ جنگلی گھاس کہاں سے آ گئی؟‘(27) اُس آدمی نے جواب دیا، ’ایک دشمن نے ان کو لگایا ہے۔‘ تب نوکر نے پوچھا، ’کیا آپ چاہتے ہیں کی ہم اسکو نوچ کر پھینک دیں؟‘(28) اُس آدمی نے جواب دیا، ’نہیں، کیونکہ جب تم اُس گھاس کو اوکھاڑوگے تو ساتھ میں گیہوں بھی اکھڑ سکتا ہے۔(29) فصل پکنے تک اُس جنگلی گھاس کو گیہوں کے ساتھ ہی اُگنے دو۔ فصل کاٹتے وقت مَیں مزدوروں سے کہوں گا: پہلے جنگلی گھاس کو کاٹو اور اُسکا گٹھر باندھ کر جلا دو۔ تب گیہوں کو جمع کرو اور میرے گودام میں لے آؤ۔“(30)

پھر عیسیٰ(ا.س) نے ایک اور مثال دی: ”الله رب العظیم کی سلطنت سرسوں کے بیج کے جیسی ہے۔ ایک آدمی اپنے کھیتوں میں بیج بوتا ہے۔(31) وہ بیج سب بیجوں میں چھوٹا ہوتا ہے لیکن جب اگتا ہے تو سب سے بڑے پودوں میں سے ایک ہے۔ وہ اِتنا بڑا ہو جاتا ہے کی اُس کی ڈالیوں میں جنگلی چڑیاں اپنا گھوںسلا بناتی ہیں۔“(32) اور پھر اُنہوں نے ایک اور مثال دی: ”الله رب العظیم کی سلطنت خمیر کے جیسی ہے جو ایک عورت بہت سارے آٹے میں ملاتی ہے۔ خمیر پورے آٹے میں پھیل جاتا ہے۔“(33) عیسیٰ(ا.س) کہانیاں سنا کر لوگوں کو ساری باتیں بتایا کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ لوگوں کو سمجھانے کے لئے کہانیاں (یا مثالیں) سنایا کرتے تھے۔(34) نبی نے زبور-اے-پاک میں یہ کہا ہے: ”مَیں مثالوں کی زبان بولوں گا؛ مَیں اُن چیزوں کے بارے میں بتاؤں گا جو زمین کے بننے کے وقت سے ایک راز ہیں۔[a](35)

پھر عیسیٰ(ا.س) بھیڑ سے اُٹھ کر گھر کے اندر چلے گئے۔ انکے شاگرد انکے پاس آئے اور کہا، ”ہمیں کھیتوں میں جنگلی گھاس والی مثال کا مطلب سمجھائے۔“(36) عیسیٰ(ا.س) نے جواب دیا، ”وہ آدمی جس نے اپنے کھیتوں میں اچھے بیج بوئے وہ انسان کا بیٹا ہے۔(37) کھیت ایک دنیا ہے اور اچھے بیج وہ سارے لوگ ہیں جو الله رب العظیم کی بادشاہت میں ہیں۔ جنگلی گھاس وہ لوگ ہیں جو لوگ شیطان کے ساتھ ہیں۔(38) اور وہ دشمن جس نے خراب بیج بوئے تھے وہ شیطان ہے۔ قیامت فصل کے کاٹنے کا وقت ہے اور جو فصل کو جمع کرتے ہیں وہ فرشتے ہیں۔(39)

”جنگلی گھاس کو اکھاڑ کر آگ میں جلا دیا گیا۔ آخر کے دنوں میں اِسی طرح سے ہوگا۔(40) انسان کا بیٹا فرشتوں کو بھیجےگا۔ وہ الله تعالى کی سلطنت میں سے ایسے لوگوں کو جمع کریں گے کی جن لوگوں نے بُرے کام کروائے اور وہ سارے لوگ جنہوںے شیطانی کام کیے ہیں۔(41) فرشتے اُن کو ایک بھڑکتی ہوئی آگ میں پھینک دیں گے اور وہاں پر لوگ اپنے دانت پیس-پیس کر درد سے روئیں گے۔(42) تب اچھے لوگ اپنے رب کی سلطنت میں سورج کی طرح چمکیں گے۔ اگر تمہارے پاس کان ہیں، تو میری باتوں کو دھیان سے سنو!“(43)

[اسکے بعد عیسیٰ(ا.س) نے اُن کو ایک اور مثال دی۔ اُنہوں نے کہا:] ”الله رب العظیم کی بادشاہت کھیت میں ایک گڑے خزانے کی طرح ہے۔ ایک دن ایک آدمی اُس خزانے کو ڈھونڈھ لیتا ہے اور پھر اسکو واپس زمین میں گاڑ دیتا ہے۔ وہ آدمی خزانہ ملنے سے اِتنا خوش ہو جاتا ہے کی اپنا سب کچھ بیچ کر اُس زمین کو خرید لیتا ہے۔(44) الله رب العظیم کی بادشاہی اُس آدمی کی طرح ہے جو سچا موتی ڈھونڈھ رہا ہو۔(45) اور ایک دن اسکو وہ قیمتی موتی مل جائے تو وہ اپنا سب کچھ بیچ کر وہ موتی خرید لیتا ہے۔(46)

”الله رب العظیم کی بادشاہی اُس جال کی طرح ہے کی جس کو جھیل میں پھینکا جائے اور اُس میں الگ الگ طرح کی مچھلیاں پھنس جائیں۔(47) جب وہ جال بھر جاتا ہے تو مچھوارا اسکو کنارے تک لے آتا ہے۔ مچھوارا کنارے پر بیٹھ کر اُس جال میں سے اچھی مچھلیاں نکال کر اپنی دلیہ میں رکھ لیتا ہے اور خراب مچھلیوں کو پھینک دیتا ہے۔(48) اور آخری دور میں بھی یہی ہوگا۔ فرشتے آئیں گے اور بُرے لوگوں میں سے اچھے لوگوں کو الگ کریں گے۔(49) فرشتے اُن بُرے لوگوں کو بھڑکتی آگ میں پھینک دیں گے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں لوگ اپنے دانت پیس-پیس کر درد سے روئیں گے۔“(50) تب عیسیٰ(ا.س) نے پوچھا، ”کیا تم اِن سب باتوں کو سمجھ گئے؟“ اُنہوں نے جواب دیا، ”جی ہاں، ہم سمجھ گئے۔“(51) پھر عیسیٰ(ا.س) نے انسے کہا، ”قانون پڑھانے والے ہر اُستاد جس کو الله رب العظیم کی بادشاہی کا علم دیا گیا ہے وہ ایک مکان کے مالک کی طرح ہے۔ جس کے گھر میں نئی اور پرانی چیزیں بھری ہوئی ہیں اور وہ ان میں سے نئی اور پرانی چیزیں باہر نکال کر لاتا ہے۔“(52)