یروشلم میں تعلیم (انجیل : یوحنا 12:1-50)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

یروشلم میں تعلیم

انجیل : یوحنا 12:1-50

فسح کی عید کے چھ دن پہلے، عیسیٰ(ا.س) بیتانی یا شہر گئے۔ اُس شہر میں لازرس نام کا ایک آدمی رہتا تھا، جس کو اُنہوں نے زندہ کیا تھا۔(1) اُن لوگوں نے عیسیٰ(ا.س) کے لئے رات کے کھانے کا انتظام کیا۔ (لازرس کی بہن) مارتھا نے کھانا دسترخوان پر لگایا۔ وہاں موجود لوگوں میں لازرس بھی عیسیٰ(ا.س) کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا۔(2) (لازرس کی دوسری بہن) مریم، آدھا لیٹر عطر لے کر آئی، جو بہت مَہنگا تھا، اور اُس میں بلکل بھی ملاوٹ نہیں تھی۔ اسنے وہ عطر عیسیٰ(ا.س) کے پیروں پر اُنڈیل دیا اور اُسے اپنے بالوں سے پوچھ دیا۔ اُس عطر کی میٹھی خوشبو پورے گھر میں بس گئی۔(3)

عیسیٰ(ا.س) کا شاگرد، یہوداہ اسکریوتی، وہ بھی وہاں موجود تھا۔ (یہ وہ شاگرد تھا جو بعد میں عیسیٰ(ا.س) کے خلاف ہو گیا تھا۔) یہوداہ نے کہا،(4) ”اِس عطر کی قیمت پورے سال بھر کی آمدنی کے برابر ہے۔ اسکو بیچ دینا چاہئے تھا اور اسسے ملے پیسوں کو غریبوں میں بانٹ دینا چاہئے تھا۔“(5) اصلیت میں یہوداہ کو غریبوں کی فکر نہیں تھی۔ اسنے ایسا اِس لئے کہا کیونکہ وہ ایک چور تھا۔ یہ وہی آدمی تھا جس کے پاس پیسوں کے صندوق کی ذمہ داری تھی اور وہ اکثر اُسی میں سے پیسے چُرا لیتا تھا۔(6)

عیسیٰ(ا.س) نے جواب دیا، ”اُسے پریشان مت کرو۔ اسنے آج کے دن کے لئے عطر کو بچا کر صحیح کام کیا ہے۔ یہ دن میرے لئے کفن-دفن کی تیاری کا دن ہے۔(7) غریب تمہارے ساتھ ہمیشہ رہیں گے، لیکن مَیں تمکو ہمیشہ نہیں ملوں گا۔“(8)

یہودیوں کی بڑی بھیڑ نے سن لیا کی عیسیٰ(ا.س) بیتانی یا شہر میں ہیں۔ تو وہ وہاں نہ صرف عیسیٰ(ا.س) کو بلکہ لازرس کو بھی دیکھنے گئے۔ لازرس وہی آدمی تھا جو مر گیا تھا پھر اسکو عیسیٰ(ا.س) نے زندہ کیا تھا۔(9) تو سب سے بڑے اماموں نے بھی لازرس کو مارنے کا منصوبہ بنایا۔(10) کیونکہ لازرس کی وجہ سے بہت سارے یہودی عیسیٰ(ا.س) پر ایمان لے آئے تھے۔(11) اگلے دن ایک بڑی بھیڑ کو یروشلم میں پتا چلا کی عیسیٰ(ا.س) وہاں آ رہے ہیں۔ وہ لوگ وہاں پر فسح کی عید[a] کا جشن منانے کے لئے گئے ہوئے تھے۔(12) لوگ اپنے ہاتھوں میں کھجور کی ڈالیاں لے کر عیسیٰ(ا.س) سے ملنے نکل پڑے۔ وہ لوگ خوشی سے چلّا رہے تھے:

”الله تعالى حفاظت کرنے والا ہے!

اُس کے چنے ہوئے مسیحا پر برکت نازل ہو،

جو اُس کے لوگوں کا رہنما ہے۔“[b](13)

عیسیٰ(ا.س) کو ایک گدھے کا بچہ ملا اور وہ اُس پر بیٹھ گئے۔ اِس بات کی پیشن گوئی [زکریا(ا.س) سے] مُقدّس کتاب میں کی گئی تھی:(14)

”ڈرو نہیں، اے یروشلم کے لوگوں!

تمہارا بادشاہ آ رہا ہے۔

وہ گدھے کے ایک بچے پر بیٹھا ہوا ہوگا۔“[c](15)

شاگردوں کو تب تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی جب تک عیسیٰ(ا.س) کو آسمان میں اُٹھایا نہیں گیا۔ تب اُن کو یاد آیا جو انکے بارے میں لکھا ہوا تھا اور وہ سب بھی جو انکے ساتھ کیا گیا تھا۔(16)

عیسیٰ(ا.س) کے ساتھ بہت سارے لوگ تھے جب اُنہوں نے لازرس کو قبر سے پکارا تھا کی باہر آؤ اور وہ زندہ ہو گیا تھا۔ اور اب وہ دوسروں کو بتا رہے تھے کی عیسیٰ(ا.س) نے کیا کرشما کیا تھا۔(17) بہت سارے لوگ عیسیٰ(ا.س) سے ملنے پہنچے، کیونکہ اُن لوگوں نے عیسیٰ(ا.س) کے اِس کرشمے کے بارے میں سنا تھا۔(18) اور تب یہودیوں کے مذہبی رہنماؤں نے آپس میں بات کری، ”تم دیکھ سکتے ہو کی سب ٹھیک نہیں ہو رہا ہے۔ دیکھو! پوری دنیا انکے ساتھ ہو گئی ہے۔“(19) وہاں پر کچھ یونانی لوگ بھی تھے جو فسح کی عید کے موقع پر عبادت کرنے آئے تھے۔(20) وہجناب فلپّس سے بات کرنے گئے۔ (جناب فلپّس عیسیٰ(ا.س) کا ایک شاگرد تھا جو بیت-صیدا شہر سے آیا تھا، جو گلیل کے علاقے میں تھا۔) اُنہوں نے کہا، ”حضور، ہم عیسیٰ(ا.س) سے ملنا چاہتے ہیں۔“(21) جناب فلپّس نے جناب اندریاس کو یہ بات بتائی اور پھر جناب اندریاس اور جناب فلپّس دونوں نے عیسیٰ(ا.س)کو یہ بات بتائی۔(22)

عیسیٰ(ا.س) نے انسے کہا، ”آدمی کے بیٹے کے لئے وہ وقت آ گیا ہے کی اسکو ایک اونچا مقام ملے۔(23) مَیں تمہیں ایک سچائی بتاتا ہوں۔ گیہوں کے ایک بیج کو زمین پر گر کر مرنا ہی ہوگا تبھی وہ بہت سارے دانوں کو پیدا کر پائےگا۔ لیکن اگر وہ مرےگا نہیں، تو وہ ایک دانہ ہی رہےگا۔(24) وہآدمی جو اِس دنیا کی زندگی کو پسند کرتا ہے وہ اُسے کھو دےگا۔ لیکن جو لوگ اِس دنیا کی زندگی سے نفرت کریں گے، انہیں لوگوں کو کبھی نہ ختم ہونے والی اصلی زندگی حاصل ہوگی۔(25) جو بھی میری خدمت کرتا ہے وہ وفاداری کے ساتھ میری باتوں پر عمل کرے۔ تبھی میری خدمت کرنے والے میرے ساتھ ہمیشہ رہیں گے، چاہے مَیں جہاں بھی رہوں۔ میری خدمت کرنے والوں کو میرا رب عزت بخشےگا۔“(26)

[عیسیٰ(ا.س) نے آگے کہا،] ”اب میری روح مشکل میں ہے اور بہت پریشان ہے۔ مَیں اور کیا کہوں؟ کیا مَیں یہ کہوں، ’یا الله رب العظیم، مجھے اِس وقت سے بچا‘؟ نہیں، مجھے اِسی کام کے لئے بھیجا گیا ہے۔(27) اے الله رب العظیم اپنے نام کی عظمت دکھا!“ تب آسمان سے ایک آواز سنائی دی، جس نے کہا ”مینے اپنے نام پر عظمت نازل کری ہے، اور مَیں پھر سے نازل کروں گا۔“(28)

جبوہاں موجود لوگوں کی بھیڑ نے یہ آواز سنی تو اُنہوں نے کہا کی وہ ایک گرج تھی۔ لیکن کچھ لوگوں نے کہا، ”ایک فرشتے نے عیسیٰ(ا.س) سے بات کری ہے۔“(29) عیسیٰ(ا.س) نے کہا، ”وہ آواز تمہارے لئے ہی تھی، میرے لئے نہیں۔(30) اب وقت آ گیا ہے کی اِس دنیا کا فیصلہ کیا جائے۔ اب اِس دنیا پر حکومت کرنے والے شیطان کو باہر پھینک دیا جائےگا۔(31) مجھے اِس زمین سے اوپر اُٹھا لیا جائےگا۔ جب یہ ہوگا، تو مَیں سب لوگوں کو اپنی طرف بلاؤں گا۔“(32) عیسیٰ(ا.س) نے یہ بتا کر ظاہر کیا کی اُن کو کس طرح قتل کیا جائےگا۔(33)

بھیڑ نے کہا، ”ہم نے توریت شریف میں سنا ہے کی مسیحا ہمیشہ زندہ رہےگا۔ تو آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں، ’کی آدمی کے بیٹے کو اوپر اٹھنا ہوگا‘؟ کون ہے یہ ’آدمی کا بیٹا‘؟“(34) تب عیسیٰ(ا.س) نے کہا، ”تمہارے ساتھ نور کچھ دیر تک رہےگا۔ تو جب تک تمہارے پاس روشنی ہے تب تک چلتے رہو، اِس سے پہلے اندھیرا ہو جائے۔ جو اندھیرے میں چلتا ہے اسکو یہ پتا نہیں رہتا کی وہ کہاں جا رہا ہے۔(35) تو اُس نور پر ایمان لاؤ جو تمہارے ساتھ ہے، اور تب تم اُس نور کے بیٹے بن جاؤگے۔“ جب عیسیٰ(ا.س) یہ سب کہہ چکے، تو وہ بھیڑ سے نکل کر غائب ہو گئے۔(36)

عیسیٰ(ا.س) نے لوگوں کو بہت سے کرشمے دکھائے، اُس کے باوجود بھی لوگ اُن پر ایمان نہیں لائے تھے۔(37) اِس طرح سے یشعیاہ(ا.س) کی بات کا مطلب سمجھ میں آ گیا۔ اُنہوں نے کہا تھا:

”یا رب، کس نے ہماری باتوں پر یقین کیا؟

کس نے الله تعالى کی طاقت کو دیکھا؟“[d](38)

یشعیاہ(ا.س) نے بتایا تھا کی لوگ کس وجہ سے ایمان نہیں لا پائیں گے:(39)

”الله تعالى نے انکی آنکھوں کی روشنی چھین لی ہے اور انکے ذہنوں پر پردا ڈال دیا ہے۔ ایسا اِس لئے کی تاکی وہ اپنی آنکھوں سے کچھ دیکھ نہیں پائے اور اپنے ذہن سے کچھ سمجھ نہ پائے۔ تاکی وہ معافی نہ مانگیں اور مَیں اُن کو معاف نہ کروں۔“[e](40)

یشعیاہ(ا.س) نے یہ بات (صدیوں پہلے) کہی کیونکہ عیسیٰ(ا.س) کے ساتھ جو کچھ بھی ہونے جا رہا تھا اُن پر ظاہر ہو گیا تھا اور اُنہوں نے اسکے بارے میں بتایا تھا۔(41) لیکن بہت سارے لوگ عیسیٰ(ا.س) پر ایمان لے آئے تھے، یہاں تک کی بہت سارے رہنما بھی۔ لیکن فریسیوں کی وجہ سے، وہ یہ نہیں کہہ سکتے تھے کی وہ اُن پر ایمان لے آئے ہیں۔ اُن کو ڈر تھا کی کہیں اُن کو عبادت گاہ سے نکال نہ دیا جائے۔(42) اُن کو لوگوں سے ملی عزت زیادہ پسند تھی نہ کی الله تعالى سے ملی عزت۔(43)

تب عیسیٰ(ا.س) نے اونچی آواز میں کہا، ”جو مجھ پر ایمان لایا ہے وہ اصلیت میں اُس پر ایمان لایا ہے جس نے مجھے یہاں بھیجا ہے۔(44) جو مجھے دیکھ رہا ہے وہ اُسے دیکھ رہا ہے جس نے مجھے یہاں بھیجا ہے۔(45) مَیں اِس دنیا میں ایک نور کی طرح آیا ہوں۔ مَیں یہاں اِس لئے آیا ہوں تاکی میرے اوپر ایمان رکھنے والے لوگ اندھیرے میں نہ رہیں۔(46) اگر کوئی میرے کلام کو سنتا ہے اور اُس پر عمل نہیں کرتا، تو مَیں اُسکا فیصلہ نہیں کروں گا۔ کیونکہ مَیں اِس دنیا میں فیصلہ کرنے نہیں آیا ہوں، بلکہ اسکو بچانے کے لئے آیا ہوں۔(47) جو مجھ پر ایمان نہیں لائےگا اور میری بات پر عمل نہیں کرےگا تو اُس کے لئے ایک فیصلہ کرنے والا موجود ہے۔ میرے بولتے ہوئے کلام سے ہی قیامت کے دن اُسکا فیصلہ کیا جائےگا۔(48) مینے جو بھی بات کہی وہ مینے خود سے نہیں کہی ہے۔ الله رب العظیم نے مجھے اِس کا علم دیا ہے کی کیسے کلام کرنا ہے اور لوگوں کو کیا سکھانا ہے۔(49) اور کبھی ختم نہ ہونے والی زندگی الله ربل کریم کے حکم سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ تو میرا کلام بلکل ویسا ہی ہے جیسا الله ربل کریم نے مجھے بتایا ہے۔“(50)