بیج بونے والے کی مثال (انجیل : محافظ 4:2-20)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

بیج بونے والے کی مثال

انجیل : محافظ 4:2-20

عیسیٰ(ا.س) نے لوگوں کو سکھانے کے لئے بہت ساری مثالیں دی تھیں۔ اُنہوں نے کہا،(2) ”ایک کسان بیج بونے اپنے کھیت میں گیا۔(3) جب وہ بیج بو رہا تھا تو کچھ بیج سڑک کے کنارے گر گئے۔ چڑیاں آئیں اور اُن بیجوں کو کھا گئیں۔(4) کچھ بیج زمین پر گرے جہاں زیادہ مٹی نہیں تھی۔ اُس ہلکی مٹی میں یہ بیج بہت جلدی اُگنے لگے۔(5) لیکن سورج کی گرمی سے، وہ پودے برباد ہو گئے کیونکہ انکی جڑیں بہت گہری نہیں تھیں۔(6) کچھ بیج کانٹےدار گھاس پھونس میں گرے۔ وہ بیج بھی پھل پھول نہیں پائے کیونکہ اُن جھاڑیوں نے اُنہیں جکڑ لیا۔(7) جو بھی بیج اچھی زمین پر گرے وہ پھلنے پھولنے لگے۔ وہ بڑے ہوئے اور انسے اناج نکالا گیا۔ کچھ پودوں نے تیس گنا زیادہ اناج پیدا کیا، کچھ نے ساٹھ اور کچھ نے سو گنا زیادہ۔“(8) تب عیسیٰ(ا.س) نے کہا، ”جو بھی میری بات سن رہا ہے وہ اِسے دھیان سے سنے اور سمجھے!“(9)

بعد میں جب، عیسیٰ(ا.س) بھیڑ سے الگ تھے تو انکے شاگرد انکے پاس آ کر چاروں طرف بیٹھ گئے اور انسے اُس مثال کے بارے میں پوچھا۔(10) عیسیٰ(ا.س) نے کہا، ”اب تم الله تعالى کی حکومت کے عجوبوں کو سمجھنے کے لئے تیار ہو۔ مَیں دوسرے لوگوں کو کہانی سناتا ہوں۔(11) کیونکہ، (نبی یشعیاہ(ا.س) نے اِن لوگوں کے بارے میں کہا تھا):

’وہ دیکھنے کے بعد بھی اسکو سیکھنے کی کوشش نہیں کریں گے۔

وہ سننے کے بعد بھی اسکو سمجھنے کی کوشش نہیں کریں گے۔

اگر وہ لوگ سیکھ لیں گے اور سمجھ جائیں گے،

اور پھر میرے پاس آئیں گے تو انکے گناہوں کو معاف کر دیا جائےگا۔‘“[a](12)

تب عیسیٰ(ا.س) نے اپنے شاگردوں سے کہا، ”کیا تمکو اِس مثال کا مطلب سمجھ میں نہیں آیا؟ اگر نہیں، تو تم اور مثالوں کا مطلب کیسے سمجھو گے؟(13) کسان ایک آدمی کی طرح ہے اور بیج الله تعالى کے کلام کی طرح۔(14) کبھی بیج سڑک پر گر جاتا ہے۔ یہ اُن لوگوں کی طرح ہیں کی جو لوگ الله تعالى کے کلام کو سنتے تو ہیں لیکن شیطان جلدی سے انکے دلوں سے اُسے لے جاتا ہے۔(15) کچھ لوگ اُس بیج کی طرح ہے جس کو پتھریلے میدان میں اوگایا گیا ہو۔ وہ الله تعالى کا کلام سنتے ہیں اور اُسے جلدی سے قبول بھی کر لیتے ہیں۔(16) لیکن الله تعالى کا کلام انکی زندگی پر گہرا عصر نہیں ڈالتا ہے۔ وہ صرف تھوڑے وقت کے لئے اُن پر عصر کرتا ہے۔ لیکن جب الله تعالى کے کلام پر عمل کرنے کی وجہ سے اُن پر کوئی آفت آ پڑتی ہے، تو وہ فوراً لڑکھڑا جاتے ہیں اور وہ الله تعالى کے کلام کو ٹھکرا دیتے ہیں۔(17)

”کچھ لوگ اُن بیجوں کی طرح ہیں کی جن کو کٹیلی جھاڑیوں میں اوگایا گیا ہو۔(18) وہ الله تعالى کا کلام سنتے تو ہیں لیکن اُن کو زندگی کی پریشانیاں، عزت-شہرت اور دنیا کی چمک جکڑ لیتی ہے۔ یہ ساری چیزیں اُنہیں الله تعالى کے کلام سے روکتی ہیں۔(19)

”بچے ہوئے لوگ اُن بیجوں کی طرح ہیں جن کو اچھی زمین میں لگایا گیا۔ وہ الله تعالى کا کلام سنتے ہیں اور اُس پر عمل بھی کرتے ہیں۔ وہ لوگ اُس پیڑ کی طرح ہیں جو خوب پھلتے-پھولتے ہیں اور اپنے سے تیس گنا، کچھ ساٹھ گنا اور کچھ سو گنا زیادہ بیج پیدا کرتے ہیں۔“(20)