”پاک“ اور ”ناپاک“ میں فرق (انجیل : محافظ 7:1-23)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

”پاک“ اور ”ناپاک“ میں فرق

انجیل : محافظ 7:1-23

کچھ یہودی لوگ جو فریسی[a] کہلاتے تھے اور کچھ موسیٰ(ا.س) کے قانون کو پڑھانے والے اُستاد یروشلم میں عیسیٰ(ا.س) کے پاس آئے۔(1) اُنہوں نے دیکھا کی عیسیٰ(ا.س) کے کچھ شاگردوں نے ناپاک[b] ہاتھوں سے کھانا کھا لیا تھا۔ ((2) یہودی لوگ اور ان میں سے فریسی خاص طریقے سے بنا ہاتھ دھوئے کھانا نہیں کھاتے تھے۔ وہ اپنے باپ-دادا کے سکھائے ہوئے طور-طریقے پر سختی سے عمل کرتے تھے۔(3) یہودی لوگ جب بازار سے واپس آتے تھے تو اپنے آپکو بنا پاک کیے کھانے کو ہاتھ نہیں لگاتے تھے۔ وہ لوگ اپنے بزرگوں کی اور بھی بہت سی رسموں کو نبھاتے تھے۔ انکے پاس چیزوں کو پاک کرنے کے لئے خاص طریقے تھے۔ وہ چائے کی پیالی کو، گھر کو، برتنوں کو، اور بیٹھ کر کھانا کھانے والی جگہ کو الگ-الگ طریقے سے پاک کرتے تھے۔)(4) فریسیوں اور موسیٰ(ا.س) کے قانون کو پڑھانے والے اُستادوں نے عیسیٰ(ا.س) سے کہا، ”آپ کے شاگرد اپنے باپ-دادا کے سکھائے ہوئے طریقے پر عمل کیوں نہیں کرتے ہیں؟ آپ کے شاگردوں نے کھانا کھانے سے پہلے اپنے ہاتھوں کو پاک کیوں نہیں کیا، جیسا کی ہمارے قانون میں لکھا ہوا ہے۔ اُنہوں نے ایسا کیوں کیا؟“(5)

عیسیٰ(ا.س) نے جواب دیا، ”تم سب بناوٹی ہو! نبی یشعیاہ(ا.س) نے صدیوں پہلے تمہارے بارے میں بلکل ٹھیک لکھا تھا۔ یشعیاہ(ا.س) نے لکھا تھا، ’یہ لوگ صرف لفظوں سے الله تعالى کی عزت کرتے ہیں اپنے دل سے نہیں۔ ان کے دل الله تعالى کی مُحَبَّت سے خالی ہیں۔(6) ان کی عبادت بےکار ہے۔ وہ لوگ جو بھی سکھاتے ہیں وہ الله تعالى کے نہیں بلکہ انسان کے بنائے ہوئے اُصول ہیں۔ وہ لوگوں کو انسان کے بنائے ہوئے طریقے پر عمل کرنے کا حکم دیتے ہیں۔‘(7) تم الله تعالى کا حکم بھول گئے لیکن تم کبھی انسانی اصولوں پر عمل کرنا اور اُسے سکھانا نہیں بھولے۔“(8)

تب عیسیٰ(ا.س) نے انسے یہ بھی کہا، ”تم نے بڑی چالاکی سے الله تعالى کے حکم کو کنارے کرنے کا طریقہ نکال لیا ہے اور اپنے طور-طریقے کو آم کر دیا ہے!(9) موسیٰ(ا.س) نے بھی کہا تھا، ’اپنے ماں-باپ کی عزت کرنا۔‘[c] اور ’جو کوئی اپنے ماں-باپ کو بُرا کہے یا انسے بُرا سلوک کرے تو اُسے مر جانا چاہئے۔‘(10) لیکن تم لوگ سکھاتے ہو کوئی اپنے ماں-باپ سے کہہ سکتا ہے، ’میرے پاس جو ساری چیزیں ہیں، مَیں آپ کے لئے استعمال نہیں کر سکتا، کیونکہ مینے وعدہ کیا ہے کی وہ سب مَیں الله تعالى کو دوں گا۔‘(11) اِسی طرح سے، تم سب کو سکھاتے ہو کی اپنے ماں-باپ کے لئے کچھ بھی نہ کرے۔[d](12) تو تم لوگوں کو سکھاتے ہو کی الله تعالى کے کلام کو ماننا ضروری نہیں بلکہ طور-طریقے اور ریتی-رواج زیادہ ضروری ہیں۔ تم لوگ اِس طرح کے اور بھی کام کر رہے ہو۔“(13)

تب عیسیٰ(ا.س) نے سارے لوگوں کو اپنے پاس پھر سے بُلایا۔ اُنہوں نے کہا، ”میری بات سنو! ہر کوئی میری بات کو دھیان سے سنے اور سمجھے جو مَیں کہنے جا رہا ہوں۔(14) کسی چیز کو کھانے سے انسان گندا نہیں ہوتا بلکہ اُس چیز سے ہوتا ہے جو وہ کرتا ہے۔(15) جن لوگوں کے پاس کان ہیں وہ اِسے دھیان سے سنیں اور سمجھیں!“(16)

جب عیسیٰ(ا.س) وہاں سے واپس گھر کے اندر آ گئے، تو انکے شاگردوں نے انکی کہی ہوئی باتوں کا مطلب پوچھا۔(17) عیسیٰ(ا.س) نے جواب دیا، ”کیا تم بھی نہیں سمجھ پائے؟ تم اچھی طرح جانتے ہو کی انسان کو وہ چیز بلکل نجیس نہیں کرتی جو باہر سے اندر جاتی ہے۔(18) کھانا انسان کے دل اور دماغ میں نہیں جاتا۔ کھانا اُس کے پیٹ میں جاتا ہے اور پھر اُس کے جسم میں سے ہو کر گزرتا ہے۔“(19)

عیسیٰ(ا.س) نے کہا، ”سنو! وہ چیزیں جو انسان کے اندر سے باہر نکلتی ہیں، وہ اسکو نجیس کرتی ہیں۔(20) انسان کے دل اور دماغ سے جو بھی شیطانی چیزیں نکلتی ہیں: گندے خیال، ناجائز تعلقات، چوری، قتل، زنا،(21) خود غرضی، لالچ، لڑائی-جھگڑا، جھوٹ بولنا، بُرا طریقہ، جلن، پیٹھ پیچھے بُرائی کرنا، غرور کرنا اور بے وقوفی کرنا۔(22) یہ ساری چیزیں انسان کے اندر سے نکل کر آتی ہیں۔ یہ وہ ساری چیزیں ہیں جو اسکو گندا کرتی ہیں اور الله تعالى کے سامنے ناپاک کر دیتی ہیں۔“(23)