بُرائی یا اچھائی (انجیل : یوحنا 18:1-40، 19:1-6)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

بُرائی یا اچھائی

انجیل : یوحنا 18:1-40، 19:1-6

عیسیٰ(ا.س) عبادت کرنے کے بعد اپنے شاگردوں کے ساتھ کیردوں نام کی ایک وادیِ کو پار کر کے ایک باغ میں پہنچے۔(1) عیسیٰ(ا.س) کا شاگرد یہوداہ اُن کو دھوکہ دینے کے لئے وہاں سے جا چکا تھا۔ وہ جانتا تھا کی یہ جگہ کہاں ہے کیونکہ عیسیٰ(ا.س) اپنے شاگردوں سے یہاں پر کئی بار مل چکے تھے۔(2) یہوداہ رومی فوجیوں کو ساتھ لے کر اُس باغ میں آ پہنچا۔ وہ اپنے ساتھ یہودی امام اور فریسی اُستادوں کے کچھ پہرےداروں کو بھی لایا تھا۔ وہ لوگ اپنے ہاتھوں میں مشعلیں، لالٹین اور ہتھیار لئے ہوئے تھے۔(3)

عیسیٰ(ا.س) جانتے تھے کی انکے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ اِس لئے عیسیٰ(ا.س) نے باہر نکل کر پوچھا، ”تم لوگ کس کو ڈھونڈھ رہے ہو؟“(4) اُن لوگوں نے جواب دیا، ”ہم ناظرۃ کے عیسیٰ کو ڈھونڈھ رہے ہیں۔“ عیسیٰ(ا.س) نے انسے کہا، ”مَیں ہی وہ ہوں۔“ (یہوداہ، جو عیسیٰ(ا.س) کو دھوکہ دے رہا تھا، وہیں انکے ساتھ کھڑا ہوا تھا۔)(5) جب عیسیٰ(ا.س) نے کہا، ”مَیں ہی وہ ہوں،“ تو وہ لوگ پیچھے ہٹے اور زمین پر گر گئے۔(6) عیسیٰ(ا.س) نے پھر سے پوچھا، ”تم کس کو ڈھونڈھ رہے ہو؟“ اُن لوگوں نے کہا، ”ہم ناظرۃ کے عیسیٰ کو ڈھونڈھ رہے ہیں۔“(7) عیسیٰ(ا.س) نے انسے پھر کہا، ”مَیں تمکو بتا چکا ہوں کی مَیں ہی وہ ہوں۔ تو اگر تم مجھے ہی ڈھونڈھ رہے ہو تو اِن لوگوں کو جانے دو۔“(8) یہ سب اِس طرح سے ہوا کی عیسیٰ(ا.س) کی کہی ہوئی ہر بات سچ ہونے والی تھی: ”تونے مجھے جتنے بھی لوگ دیئے مینے اُن سب کی حفاظت کری۔“[a](9)

جناب شمون پطرس کے پاس تلوار تھی۔ اسنے وہ تلوار نکال کر امام کے غلام پر حملہ کر دیا جسسے اُسکا ایک کان کٹ گیا۔ (اُس غلام کا نام ملخُس تھا۔)(10) عیسیٰ(ا.س) نے جناب پطرس سے کہا، ”اپنی تلوار کو میان میں رکھ لو۔ کیا جو ذمہ داری الله تعالى نے مجھے دی ہے مَیں وہ انجام نہ دوں؟“(11) اُن فوجیوں اور یہودی پہرےداروں نے عیسیٰ(ا.س) کو گرفتار کر کے باندھ دیا۔(12) اور پہلے ایک امام کے پاس لے کر گئے جسکا نام انس تھا۔ انس اُس سال کے سب سے بڑے امام، کائفا، کا سسر تھا۔(13) کائفا وہی آدمی تھا جس نے یہودی لوگوں سے کہا تھا، ”یہ اچھا ہے کی پوری قوم کے لئے ایک آدمی قربان ہو جائے۔“(14)

جناب پطرس اور عیسیٰ(ا.س) کا ایک دوسرا شاگرد بھی انکے پیچھے-پیچھے ساتھ گئے تھے۔ یہ شاگرد وہ تھا جو بڑے امام کو جانتا تھا۔ تو وہ عیسیٰ(ا.س) کے ساتھ اُس امام کے محل کے آنگن میں چلا گیا۔(15) لیکن جناب پطرس وہیں دروازے کے باہر رُک کر انتظار کرنے لگے۔ وہ شاگرد جو بڑے امام کو جانتا تھا اندر سے باہر آیا۔ اسنے دروازے کے پہرے دار سے بات کری اور جناب پطرس کو بھی اپنے ساتھ اندر لے گیا۔(16) دروازے کے پاس ایک غلام لڑکی نے جناب پطرس سے پوچھا، ”کیا تم بھی اُس آدمی کے شاگردوں میں سے ہو؟“ جناب پطرس نے جواب دیا، ”نہیں، مَیں نہیں ہوں!“(17) وہ سردی کا وقت تھا، اِس لئے نوکروں اور پہرےداروں نے آگ جلائی تھی۔ وہ اُس کے چاروں طرف کھڑے ہو کر آگ کی گرمی لے رہے تھے۔ جناب پطرس بھی انکے ساتھ کھڑے ہو کر ہاتھ سیںکنے لگے۔(18)

اُسی وقت، بڑا امام عیسیٰ(ا.س) سے انکے اور شاگردوں کے بارے میں سوال پوچھ رہا تھا۔(19) عیسیٰ(ا.س) نے جواب دیا، ”مینے کھلےعام لوگوں سے بات کری ہے۔ مینے ہمیشہ لوگوں کو عبادتگاہوں میں پڑھایا ہے جہاں یہودی لوگ جمع ہوتے تھے۔ مینے کبھی بھی کوئی بات چھپا کر نہیں کہی۔(20) تو تم مجھ سے سوال کیوں پوچھ رہے ہو؟ اُن لوگوں سے پوچھو جن لوگوں نے مجھ سے تعلیم لی ہے۔ وہ جانتے ہیں جو مینے کہا ہے۔(21) جب عیسیٰ(ا.س) نے یہ کہا تو وہاں کھڑے ایک پہرے دار نے اُن کو مارا۔ اُس پہرے دار نے کہا، ”کیا امام سے بات کرنے کا یہی طریقہ ہے؟“(22) عیسیٰ(ا.س) نے پہرے دار سے کہا، ”اگر مینے کچھ غلط کہا ہے، تو مجھے بتاؤ اُس میں کیا غلط ہے، اور اگر یہ بات ٹھیک ہے تو تم نے مجھے کیوں مارا؟“(23) تب انس نے عیسیٰ(ا.س) کو کائفا کے پاس بھیج دیا جو سب سے بڑا امام تھا۔ اُن لوگوں نے عیسیٰ(ا.س) کو ابھی بھی باندھ رکھا تھا۔(24)

جناب شمون پطرس ابھی بھی وہیں آگ کی گرمی لے رہے تھے۔ اُنہوں نے اسسے پوچھا، ”کیا تم اِس آدمی کے شاگردوں میں سے نہیں ہو؟“ پطرس نے منع کر دیا اور کہا، ”نہیں، مَیں نہیں ہوں۔“(25) بڑے امام کا ایک غلام وہاں موجود تھا۔ یہ اُس غلام کا رشتیدار تھا جسکا کان جناب پطرس نے کاٹا تھا۔ اُس نوکر نے پوچھا، ”کیا تمکو مینے اُس باغ میں ان کے ساتھ نہیں دیکھا تھا؟“(26) جناب پطرس نے پھر سے وہی جواب دیا، ”نہیں!“ اُسی وقت مرغے نے بانگ دی۔(27)

اُس کے بعد وہ لوگ عیسیٰ(ا.س) کو کائفا کے گھر سے لے کر رومی گورنر کے محل کے پاس پہنچے۔ اُس وقت تک صبح ہو چکی تھی۔ یہودی لوگ اُس محل میں نہیں جا رہے تھے کیونکہ وہ لوگ اپنے آپکو گندا نہیں کرنا چاہتے تھے۔[b] وہ لوگ فسح کی عید کا کھانا کھانا چاہتے تھے۔(28) اِس لئے رومی گورنر جسکا نام پیلاطس تھا، انسے ملنے باہر آیا۔ اسنے پوچھا، ”اِس آدمی نے کیا جرم کیا ہے؟“(29)

اُنہوں نے کہا، ”یہ گناہ گار ہے۔ اِس لئے ہم اِسے آپ کے پاس لائے ہیں۔“(30) پیلاطس نے انسے کہا، ”اِس کا فیصلہ اپنے قانون کے مطابق خود ہی کرو۔ اُن لوگوں نے جواب دیا، ”لیکن ہم کو اجازت نہیں ہے کی ہم کسی کو موت کی سزا دیں۔“(31) یہ بلکل ویسے ہی سچ ہو گیا کی جس طرح عیسیٰ(ا.س) نے کہا تھا کی اُن کو قتل کیا جائےگا۔(32) تب پیلاطس واپس محل کے اندر چلا گیا۔ اُس نے عیسیٰ(ا.س) سے اندر آنے کے لئے کہا اور انسے پوچھا، ”کیا تم یہودیوں کے بادشاہ ہو؟“(33) عیسیٰ(ا.س) نے جواب دیا، ”کیا یہ تمہارا خود کا سوال ہے یا تمہیں دوسرے لوگوں نے میرے بارے میں بتایا ہے؟“(34)

پیلاطس نے کہا، ”کیا مَیں یہودی ہوں؟ یہ تمہارے خود کے امام اور لوگ ہیں جو تمہیں میرے پاس لائے ہیں۔ بتاؤ تم نے کیا جرم کیا ہے؟“(35) عیسیٰ(ا.س) نے جواب دیا، ”میری سلطنت اِس دنیا کی نہیں ہے۔ اگر میری سلطنت اِس دنیا کی ہوتی تو میرے سپاہیوں نے لڑ کر یہودی رہنماؤں سے مجھے بچا لیا ہوتا۔ لیکن میری سلطنت اِس دنیا میں سے نہیں ہے۔“(36)

پیلاطس نے پھر سے وہی کہا، ”تو تم بادشاہ ہو!“ عیسیٰ(ا.س) نے جواب دیا، ”تم کہتے ہو کی مَیں بادشاہ ہوں، جو ایک سچ ہے۔ مَیں اِس کام کے لئے پیدا کیا گیا ہوں: کی لوگوں کو سچ بتا سکوں۔ مَیں اِس دنیا میں اِس لئے ہی بھیجا گیا ہوں اور جو لوگ سچے ہیں وہ ہی میری بات سنتے ہیں۔(37) پیلاطس نے کہا، ”سچ کیا ہے؟“ یہ سب کہنے کے بعد وہ باہر یہودیوں کے پاس گیا۔ اسنے انسے کہا، ”اِس آدمی پر لگایا گیا جرم ثابت نہیں ہوتا کی جس کے لئے مَیں اِسے سزا سناؤں۔(38) تمہارے ریتی-رواج کے مطابق مَیں فسح کی عید کے دن تمہارے ایک قیدی کو آزاد کرتا ہوں۔ کیا تم چاہتے ہو کی مَیں اِس ’یہودیوں کے بادشاہ‘ کو آزاد کر دوں؟“(39)

وہ سبھی چیخ کر بولے، ”نہیں، اسکو نہیں! برابّس کو آزاد کر دو!“ برابّس ایک لوٹیرا تھا۔(40)

19:1-6

تب پیلاطس نے حکم دیا کی عیسیٰ(ا.س) کو لے جا کر کوڑے مارے جائیں۔(1) فوجیوں نے کچھ کانٹےدار جھاڑیوں سے ایک تاج بنایا۔ وہ انکے سر پر لگایا اور اُن کو ایک بینگنی رنگ کا کپڑا پہنایا۔(2) تب وہ عیسیٰ(ا.س) کے پاس کئی بار آئے اور بولے، ”یہودیوں کے بادشاہ کی جئے ہو!“ اُنہوں نے عیسیٰ(ا.س) کے منہ پر تماچے مارے۔(3) پیلاطس پھر باہر آیا اور کہا، ”دیکھو! مَیں عیسیٰ کو باہر لا رہا ہوں۔ اور مَیں تمکو بتانا چاہتا ہوں کی مجھے اُس میں ایسا کچھ بھی نہیں ملا جس کے لئے مَیں اُسے سزا دوں۔“(4) تب عیسیٰ(ا.س) اپنے سر پر کانٹوں کا تاج لگائے اور چاروں طرف بینگنی کپڑا اوڑھے ہوئے باہر آئے۔ پیلاطس نے یہودیوں سے کہا، ”یہ رہا وہ آدمی!“(5) جب وقت کے امام اور اُس کے پہرےداروں نے عیسیٰ(ا.س) کو دیکھا تو وہ چلّا-چلّا کر کہنے لگے، ”اسکو صلیب پر موت کی سزا دو! اسکو صلیب پر موت کی سزا دو!“(6)