قیامت سے پہلے کیا ہوگا (انجیل : شاگردوں کے اعمال 2:1-47)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

قیامت سے پہلے کیا ہوگا

انجیل : شاگردوں کے اعمال 2:1-47

پینتکوسٹ کا دن آیا۔ [یہ وہ دن تھا کی جب الله تعالى نے موسیٰ(ا.س) کو پتھر کی دو سلیٹوں پر دس قانون لکھ کر دیئے تھے۔] عیسیٰ(ا.س) کے شاگرد سب ایک جگہ پر جمع ہوئے تھے۔(1) تبھی اچانک آسمان سے ایک آواز آئی۔ وہ آواز ایسی تھی کی جیسے بہت تیز طوفان آ رہا ہو۔ وہ آواز پورے گھر میں گونجنے لگی، جہاں وہ سب لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔(2) اُنہوں نے آگ کی لپٹوں جیسی کوئی چیز دیکھی جو آگ الگ-الگ ہو کر ہر ایک کے سامنے پہنچ گئی۔(3) وہسب لوگ الله تعالى کے نور سے بھر گئے اور الگ-الگ زبانیں بولنے لگے۔ اُن کو الگ-الگ زبانیں بولنے کی طاقت روح-القدوس سے ملی۔(4)

عبرانی لوگ دنیا کے ہر کونے سے آ کر یروشلم میں [عید کے لئے] روکے ہوئے تھے۔(5) جب اُنہوں نے یہ آواز سنی تو وہ سب ایک جگہ جمع ہو گئے۔ وہ سبھی حیران تھے کیونکہ وہ سارے شاگرد انکی ہی زبان میں انسے باتیں کر رہے تھے۔(6) وہسب لوگ اِس بات سے بہت زیادہ حیران تھے۔ اُن لوگوں نے آپس میں کہا، ”دیکھو! یہ لوگ گلیل کے رہنے والے ہیں۔(7) لیکن پھر بھی یہ لوگ جو بھی بول رہے ہیں وہ ہمیں اپنی زبان میں سنائی دے رہا ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ ہم لوگ تو الگ-الگ جگہ کے رہنے والے ہیں:(8) فارص، مادیا، عیلم، بیلاد آر-رافدین، یہودیہ، کپّادوکیا، پانتس، اشیا،(9) پھڑوگیا، پنپھولیا، مصر، اور لیبیا کا وہ علاقہ جو کرین کے آس-پاس کی جگہ میں ہے۔ یہاں روم کے لوگ بھی موجود ہیں،(10) یہودی لوگ، اور وہ لوگ جو اپنا مذہب بدل کر یہودی ہو گئے تھے، کریٹ کے لوگ، اور عربی لوگ۔ لیکن یہ لوگ جو بھی ہمیں الله رب العظیم کے بارے میں بتا رہے ہیں، وہ ہمیں اپنی زبانوں میں سنائی دے رہے ہیں!“(11) وہ سب یہ دیکھ کر بہت حیران اور پریشان تھے کی، ”اِن سب باتوں کا کیا مطلب ہے؟“(12)

لیکن دوسرے لوگ شاگردوں کا یہ کہہ کر مذاق اڑا رہے تھے، ”اِن لوگوں نے بہت زیادہ شراب پی لی ہے۔“(13) لیکن جناب پطرس باقی گیارہ شاگردوں کے ساتھ اُٹھ کھڑے ہوئے اور اونچی آواز میں بولے: ”وہ سب جو یہودیہ سے ہیں اور وہ جو لوگ یروشلم میں مہمان ہیں، میری بات دھیان سے سنیں!(14) یہ لوگ نشے میں نہیں ہیں، جیسا کی آپ لوگ سوچ رہے ہیں؛ ابھی تو صبح کے صرف نو بجے ہیں!(15) الله تعالى نے پیغمبر یویل(ا.س) کو اِن سب باتوں کے بارے میں بتایا تھا، اُنہوں نے فرمایا تھا:(16)

”’آخری وقت میں مَیں اپنے نور کو انسانوں پر اُنڈیل دوں گا:

تمہارے بیٹے اور بیٹی ہونے والی باتوں کو پہلے سے جان جائیں گے؛

تمہارے بزرگ لوگ خواب دیکھیں گے؛

تمہارے نوجوانوں کو الله تعالیٰ سے کچھ دکھایا جائےگا۔(17)

”’اُس وقت مَیں اپنا نور اُن لوگوں کو دوں گا، جو میرے نیک بندے ہوں گے۔

آدمی اور عورت دونوں کو پھر وہ لوگ آنے والے وقت کے بارے میں بتایں گے۔(18)

”’مَیں کرشمے دکھاؤں گا، اوپر آسمان اور نیچے زمین پر۔

اپنی نشانیوں کو ظاہر کروں گا: خون، آگ، اور گھنا دھواں کروں گا۔(19)

”’قیامت سے پہلے، سورج کالا پڑ جائےگا۔ چاند خون کی طرح لال ہو جائےگا۔

اور تب الله تعالى کا عظیم اور بہترین دن آئےگا۔(20)

اُس دن جو بھی الله تعالى کو پورے ایمان سے پکاریگا وہ بچا لیا جائےگا۔‘[a](21)

”اے عبرانی لوگوں، میری بات سنو: عیسیٰ(ا.س) جو ناظرۃ سے آئے تھے، اُن کو الله تعالى نے بھیجا تھا۔ الله ربل کریم نے انکے ذریعے اپنے کرشموں، عجوبوں، اور نشانیوں کو دکھا کر اِس بات کو صاف بتایا۔ تم سب لوگ اِس واقعہ کو جانتے ہو کیونکہ یہ سب تمہاری آنکھوں کے سامنے ہوا تھا۔(22) الله تعالى جانتا تھا کی آخر میں، عیسیٰ(ا.س) کو تمہارے حوالے کیا جائےگا۔ گناہ گار لوگوں کی مدد سے تم نے اُنہیں سولی پر کیلوں سے ٹھوک دیا۔(23) لیکن الله تعالى نے عیسیٰ(ا.س) کو پھر سے زندہ کر دیا۔ موت اُن کو پکڑ کر نہیں رکھ سکتی تھی۔(24) نبی داؤد(ا.س) نے فرمایا تھا:

”’مَیں الله تعالى کو ہمیشہ اپنے سامنے دیکھتا ہوں۔

کیونکہ وہ ہمیشہ میرے پاس موجود ہے،

تاکی مَیں ڈروں نہیں۔(25)

”’اِس لئے میرا دل خوشی سے بھر گیا ہے اور میری زبان اچھی باتیں بولتی ہے۔

میرا جسم اُمید پر زندہ ہے۔(26)

”’جانتا ہوں کی تُو مجھے قبر میں نہیں چھوڑے گا۔

تُو اپنے پاک مسیحا کے جسم کو سڑنے نہیں دےگا۔(27)

”’تونے مجھے زندگی کا راستا دکھایا ہے۔

مَیں تیری موجودگی میں خوشی سے بھرا ہوا ہوں۔‘[b](28)

”لوگوں، مَیں تمکو اپنے بزرگ، نبی داؤد(ا.س) کے بارے میں ایک سچ بتاتا ہوں۔ انکے گزرنے کے بعد اُن کو قبر میں دفنایا گیا۔ انکی قبر ابھی بھی موجود ہے۔(29) داؤد(ا.س) ایک نبی تھے، اور وہ جانتے تھے کی الله تعالى نے کیا کہا ہے: الله تعالى نے انسے وعدہ کیا تھا کی انکے تخت کی بادشاہی کے لئے انکے خاندان سے ہی ایک مسیحا چنےگا۔(30) ”یہ سب ہونے سے پہلے داؤد(ا.س) کو پتا تھا کی مسیحا موت سے زندہ ہو جائےگا۔ اِس لئے اُنہوں نے کہا تھا: اسکو قبر میں نہیں چھوڑا جائےگا۔ اُسکا جسم سڑے گا نہیں۔‘(31)

”تو عیسیٰ(ا.س) وہ ہیں جن کو الله تعالى نے موت سے زندہ کیا ہے! اور ہم سب لوگ اِس بات کے گواہ ہیں۔(32) عیسیٰ(ا.س) کو اوپر جنت میں اُٹھا لیا گیا اور وہ الله تعالى کے دربار میں اعلیٰ مقام پر موجود ہیں۔ الله ربل کریم، ہمارے پروردگار، نے اپنے وعدے کے مطابق اُنہیں اپنا نور عطا کرا ہے۔ اور وہ اب اُس نور کو دوسروں پر اُنڈیل رہے ہیں۔ تم یہی دیکھ اور سن رہے ہو۔(33) داؤد(ا.س) وہ نہیں تھے جن کو آسمان میں اوپر اُٹھایا گیا۔ لیکن اُنہوں نے کہا تھا:

”’الله تعالى نے میرے مولا سے کہا: میرے پاس اعلیٰ مقام پر کھڑے رہو،(34) جب تک مَیں تمہارے دشمنوں کو تمہارے پیروں کے نیچے نہیں دبا دیتا۔‘[c](35)

”اے عبرانی لوگوں، تم یہ سچ جان لو: الله رب العالمین نے عیسیٰ(ا.س) کو مولا اور مسیحا دونوں بنایا ہے۔ وہ وہی انسان تھے جن کو تم نے سولی پر کیلوں سے ٹھوک دیا!“(36)

جب لوگوں نے یہ بات سنی تو انکے دل افسوس میں ڈوب گئے۔ اُن سب لوگوں نے جناب پطرس اور باقی شاگردوں سے سوال کیا، ”اب ہم کیا کریں؟“(37) جناب پطرس نے اُن لوگوں سے کہا، ”تم سب لوگ ہر اُس کام سے منہ موڑ لو جو الله ربل کریم کو پسند نہیں ہے۔ تم لوگ غسل لے کر پاک ہو جاؤ اور عیسیٰ(ا.س) کے نام کے وسیلے سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو۔ تمہارے گناہوں کو معاف کر دیا جائےگا اور تم کو پاک روح [(نور)] کا تحفہ ملےگا۔(38) یہ وعدہ تمہارے لئے، تمہارے بچوں کے لئے، اور اُن لوگوں کے لئے ہے جو یہاں سے دُور ہیں۔ یہ ہر اُس انسان کے لئے ہے جسکا رب الله رب العالمین ہے۔“(39)

جناب پطرس نے اُن لوگوں کو خبردار کرنے کے لئے اور بھی کئی باتیں کہیں۔ اُنہوں نے سب لوگوں سے گزارش کری اور کہا، ”اپنے آپکو اِس دور کے بھٹکے ہوئے لوگوں سے بچاؤ!“(40) اور پھر جناب پطرس کی بات پر ایمان لانے والوں کو غسل دے کر پاک کر دیا گیا۔ اُس دن تقریباً تین ہزار لوگ ایمان لائے۔(41) اُن لوگوں نے اپنا وقت پیغمبروں کی نصیحتوں کو سننے اور سمجھنے میں گزارا۔ سبھی ایمان والے ایک ساتھ عبادت کرتے اور آپس میں مل کر کھانا کھاتے تھے۔(42) پیغمبروں نے الله تعالى کے حکم سے کئی کرشمے کئے جن کو دیکھ کر لوگوں کے دلوں میں عزت پیدا ہوئی۔(43)

وہ سارے لوگ ایک ساتھ رہنے لگے اور اپنا سب کچھ دوسروں میں بانٹ دیا۔(44) اُن لوگوں نے اپنی زمین اور قیمتی سامان بیچ کر ضرورت مند لوگوں کی مدد کری۔(45) وہسب ایک ساتھ مل کر عبادت گاہ جاتے، اپنے گھروں میں ساتھ بیٹھ کر کھانا کھاتے، اور خوشی-خوشی آپس میں چیزیں بانٹتے تھے۔(46) وہ سب الله تعالى کی حمد-و-ثنا کرتے تھے اور سب لوگ اُنہیں بہت پسند کرتے تھے۔ الله ربل کریم ہر دن ایمان والوں کی تعداد کو بڑھا رہا تھا تاکی وہ بچا لئے جائیں۔(47)