عیسیٰ(ا.س) عبادت گاہ میں آئے (انجیل : متّا 21:12-32)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

عیسیٰ(ا.س) عبادت گاہ میں آئے

انجیل : متّا 21:12-32

[عیسیٰ(ا.س) گدھے پر بیٹھ کر یروشلم شہر کے اندر آئے اور اُس کے بعد،] وہ عبادت گاہ کی کھولی ہوئی جگہ پر پہنچے۔ اُنہوں نے وہاں سے سامان خریدنے اور بیچنے والوں کو باہر نکال دیا۔ جو لوگ وہاں پیسوں کا لین-دین کر رہے تھے انکی میزوں کو پلٹ دیا۔ اُنہوں نے کبوتر بیچنے والے لوگوں کی بھی میزوں کو الٹ دیا۔(12) عیسیٰ(ا.س) نے انسے کہا، ”الله تعالى کے کلام میں یہ لکھا ہوا ہے، ’میری عبادت گاہ [ہر ایک کے لئے] دعا کا گھر کہلائے گی۔‘ لیکن تم لوگ اِسے چوروں کی غوفہ بنا رہے ہو۔“[a](13)

اندھے اور اپنگ لوگ عبادت گاہ میں عیسیٰ(ا.س) کے پاس آئے اور اُنہوں نے اُن کو ٹھیک کر دیا۔(14) اُس وقت کے بڑے اماموں اور اُستادوں نے اُن کو یہ کرشمے کرتے دیکھا۔ اُنہوں نے یہ بھی دیکھا کی بچے انکی تعریف کر رہے ہیں۔ بچے چلّا-چلّا کر کہہ رہے تھے، ”داؤد(ا.س) کے وارث[b] کے لئے الله تعالى کا شکریہ ادا کرو۔“ یہ سب دیکھ کر اماموں اور اُستادوں کو بہت غصہ آیا۔(15) اُنہوں نے عیسیٰ(ا.س) سے کہا، ”تمہیں سنائی دے رہا ہے کی یہ بچے کیا کہہ رہے ہیں؟“

اُنہوں نے جواب دیا، ”ہاں! تم نے سچ میں کلام کو پڑھا ہے جس میں لکھا ہے، ’[اے رب] تُو بچوں اور گود میں کھیلنے والوں کے منہ سے تعریف کروائے گا۔‘“[c](16)

عیسیٰ(ا.س) اُنہیں وہاں چھوڑ کر بیتانی یا نام کے قصبے میں چلے گئے اور رات میں وہیں روکے۔(17)

دوسری صبح-سویرے جب عیسیٰ(ا.س) یروشلم واپس جانے کے لئے نکلے تو راستے میں اُنہیں بہت بھوک لگی۔(18) اُنہوں نے سڑک کے کنارے انجیر کا ایک پیڑ دیکھا، لیکن اُس پر صرف پتے ہی تھے، ایک بھی انجیر نہیں تھی۔ تو عیسیٰ(ا.س) نے اُس پیڑ سے کہا، ”تم کبھی پھل نہیں پیدا کروگے!“ تو وہ پیڑ سوکھ کر ختم ہو گیا۔(19)

جب انکے شاگردوں نے یہ سب دیکھا، تو اُن کو بڑی حیرت ہوئی۔ اُنہوں نے پوچھا، ”یہ پیڑ اِتنی جلدی کیسے سوکھ کر ختم ہو گیا؟“(20)

عیسیٰ(ا.س) نے جواب دیا، ”سچائی یہ ہے: اگر تمہارے پاس سچا عقیدہ ہے اور ذرا سا بھی شک نہیں ہے تو تم لوگ اس سے بھی زیادہ کر سکتے ہو۔ تم اگر پہاڑ سے بھی کہوگے، ”جا، پہاڑ، سمندر میں گر جا۔“ اور اگر تمہارا ایمان پکّا ہے، تو یہ ہو جائےگا۔(21) اگر تمہارا ایمان پکّا ہے، تو تمکو ہر وہ چیز ملےگی جسے تم اپنی دعاؤں میں مانگوگے۔“(22)

عیسیٰ(ا.س) عبادت گاہ کے آنگن میں پھر سے گئے۔ جب وہ وہاں لوگوں کو تعلیم دے رہے تھے تو امام اور پرانے لیڈر انکے پاس آئے۔ اُنہوں نے کہا، ”ہمیں بتاؤ! تم یہ سب جو کر رہے ہو، اُسے کرنے کا حکم تمہیں کس نے دیا؟“(23)

عیسیٰ(ا.س) نے جواب دیا، ”مَیں بھی تم سے ایک سوال پوچھتا ہوں۔ اگر تم اُسکا جواب دوگے تو مَیں بھی تمکو بتاؤں گا کی مَیں کس کے حکم سے یہ سب کر رہا ہوں۔(24) مجھے بتاؤ: جب یحییٰ(ا.س) لوگوں کو پانی سے غسل دیتے تھے تو اُن کو یہ حکم کس نے دیا؟ کیا وہ حکم الله تعالى کی طرف سے آیا تھا، یا لوگوں نے دیا تھا؟“

اُن لوگوں نے اُس سوال کا جواب دینے کے لئے آپس میں مشورہ کیا۔ اُنہوں نے ایک دوسرے سے کہا، ”اگر ہم کہیں گے کی یحییٰ(ا.س) کے پاس الله تعالى کا حکم تھا، تو عیسیٰ(ا.س) یہ کہیں گے، ’تم لوگ پھر یحییٰ(ا.س) پر ایمان کیوں نہیں لائے؟‘(25) لیکن اگر ہم کہیں گے، ’وہ حکم لوگوں سے آیا تھا،‘ تو ہمیں پتا نہیں یہاں موجود لوگ ہمارے ساتھ کیا کریں۔ سب لوگ اِس بات پر ایمان رکھتے ہیں کی یحییٰ(ا.س) ایک نبی تھے۔“(26)

تو اُنہوں نے عیسیٰ(ا.س) کو جواب دیا، ”ہم اِس سوال کا جواب نہیں جانتے۔“ تب عیسیٰ(ا.س) نے انسے کہا، ”پھر مَیں بھی تمہیں کیوں بتاؤں کی مجھے یہ حکم کس نے دیا۔“(27)

[عیسیٰ(ا.س) نے اُنہیں ایک مثال دی اور انسے پوچھا،] ”تم اسکے بارے میں کیا سوچتے ہو؟ ایک آدمی کے دو بیٹے تھے۔ وہ اپنے پہلے بیٹے کے پاس گیا اور بولا، ’بیٹے، جاؤ اور آج انگور کے باغ میں کام کرو۔‘(28)

”اُس بیٹے نے جواب دیا، ’مَیں نہیں جاؤں گا۔‘ لیکن بعد میں اسنے فیصلہ کیا کی اُسے باغ میں جانا چاہئے، تو وہ وہاں گیا اور کام میں لگ گیا۔(29)

”تب وہ آدمی اپنے دوسرے بیٹے کے پاس گیا اور بولا، ’بیٹا، جاؤ اور انگور کے باغ میں جا کر کام کرو۔‘

”اُس لڑکے نے جواب دیا، ’جی، اچھا، مَیں جا کر کام کرتا ہوں۔‘ لیکن وہ کام کرنے نہیں گیا۔(30)

”ان میں سے کس بیٹے نے اپنے والد کا کہنا مانا؟“

یہودی لیڈروں نے جواب دیا، ”پہلے بیٹے نے۔“

عیسیٰ(ا.س) نے انسے کہا، ”مَیں تمہیں سچائی بتاتا ہوں: ٹیکس کی وصولی کرنے والے، بےایمان لوگ، اور طوائفے الله ربل کریم کی سلطنت میں تم سے پہلے داخل ہو رہے ہیں۔(31)

”کیونکہ یحییٰ(ا.س) تمکو صراط-اے-مستقیم دکھانے آئے تھے، لیکن تم اُن پر ایمان نہیں لائے اور ٹیکس کی وصولی کرنے والے، بےایمان لوگ اور طوائفے اُن پر ایمان لے آئے۔ یہ سب دیکھنے کے بعد بھی تم لوگوں نے اپنے غلط کاموں کے لئے معافی نہیں مانگی۔ تم اب بھی اُن پر ایمان لانے سے انکار کر رہے ہو۔“(32)