عیسیٰ(ا.س) کی تعلیم (انجیل : لوکاس 6:27-49)

بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ

عیسیٰ(ا.س) کی تعلیم

انجیل : لوکاس 6:27-49

عیسیٰ(ا.س) نے لوگوں کو تعلیم دیتے ہوئے کہا، ”مَیں تمہیں جو بتا رہا ہوں، اُسے دھیان سے سنو! اپنے دشمنوں سے مُحَبَّت سے پیش آؤ۔ اُن لوگوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو جو لوگ تم سے نفرت کرتے ہیں۔(27) تم اُن لوگوں کے لئے الله تعالى سے دعا مانگو جو تمہیں بددعا دیتے ہیں۔ تم اُن لوگوں کے لئے الله تعالى سے دعا مانگو جن لوگوں نے تم پر ظلم کیا ہے۔(28) اگر کوئی تمہارے ایک گال پر طماچہ مارے تو اپنا دوسرا گال بھی آگے بڑھا دو۔ اگر کوئی تمہارا کوٹ چھین لے تو تم اُسے اپنی قمیض بھی لے جانے سے مت روکو۔(29) اگر کوئی تم سے کچھ مانگے تو اُسے دے دو اور اگر کوئی تم سے کچھ لے تو اُسے کبھی واپس مت مانگو۔(30) تم دوسروں کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرو جیسا تم خود کے لئے پسند کرتے ہو۔(31) اگر صرف انسے ہی مُحَبَّت سے پیش آؤ گے جو تم سے آتے ہیں تو کیا تمکو کچھ خاص تعریف ملےگی؟ نہیں! کیونکہ گناہ گار لوگ بھی اُس سے مُحَبَّت کرتے ہیں جو اُن سے مُحَبَّت کرتا ہے۔(32)

”اگر تم صرف اُن لوگوں سے اچھا برتاؤ کروگے جو تم سے کرتے ہیں تو پھر تم لوگوں میں اور دوسرے لوگوں میں کیا فرق ہے۔(33) اگر تم لوگوں کو اپنی چیز دینے کے بعد ہمیشہ انسے واپس ملنے کی اُمید کرتے ہو، تو کیا ایسا کرنے سے تمکو کچھ خاص ثواب ملےگا؟ نہیں! کیونکہ یہ کام تو گناہ گار لوگ بھی کرتے ہیں۔(34) اپنے دشمنوں سے پیار کرو۔ اُس کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور اُن کو کچھ دینے کے بعد انسے کچھ واپس ملنے کی اُمید مت کرو۔ اگر تم ایسا کروگے تو تم الله رب العظیم کے نیک بندے کہلاؤ گے۔ ہاں، کیونکہ الله تعالى اُن لوگوں پر بھی رحم اور کرم کرتا ہے جو اُسکا شکر ادا نہیں کرتے اور جو گناہ گار ہیں۔(35) تو اپنے رب کی طرح مہربان اور رحمدل بنو۔(36)

”تم دوسرے لوگوں پر انگلی مت اٹھاؤ اور پھر تمہارے اوپر بھی نہیں اُٹھائی جائےگی۔ اگر دوسروں پر الزام نہیں لگاؤ گے تو تم پر بھی کوئی نہیں لگائے گا۔ تم اگر دوسروں کو معاف کر دوگے تو تمکو بھی معاف کر دیا جائےگا۔(37) اگر تم لوگوں کو دوگے تو تمکو بھی ملےگا۔ تمکو اُسکا پورا ثواب ملےگا، اور اِتنا ملےگا کی تم اسکو سنبھال بھی نہیں پاؤگے۔ جس طرح سے تم دوسروں کو دوگے، الله ربل کریم بھی تمکو اُسی طرح سے عطا کرےگا۔“(38)

یہ سب کہنے کے بعد، عیسیٰ(ا.س) نے اُن کو کچھ مثالیں دیں: ”کیا ایک اندھا آدمی دوسرے اندھے آدمی کو راستا دکھا سکتا ہے؟ نہیں! دونوں ہی گڑھے میں جا گریں گے۔(39) ایک شاگرد کبھی اپنے اُستاد سے اچھا نہیں ہو سکتا۔ لیکن جب اسکو سب کچھ سکھایا جا چکا ہوتا ہے تو وہ اپنے اُستاد جیسا ہی ہو جاتا ہے۔(40) تمہیں اپنے بھائی کی آنکھ میں پڑی ہوئی تھوڑی سی دھول کیسے دکھ جاتی ہے، جبکہ خود اپنی آنکھ میں پڑی ہوئی گندگی تمہیں پریشان نہیں کرتی؟(41) تم اپنے بھائی سے کہتے ہو، ’بھائی، آؤ مَیں تمہاری آنکھ میں پڑی ہوئی مٹی کو نکال دوں۔‘ تم یہ کیوں کہتے ہو؟ تم اپنی آنکھ میں پڑی گندگی کو کیوں نہیں نکالتے ہو! تم بہت فریبی ہو! پہلے اپنی آنکھ صاف کرو تبھی تم اپنے بھائی کی کر پاؤگے۔(42)

”ایک اچھا پیڑ کبھی خراب پھل نہیں پیدا کرتا ہے، اور ایک خراب پیڑ کبھی اچھا پھل نہیں دیتا۔(43) ہر پیڑ کو اُس کے پھل سے ہی جانا جاتا ہے۔ لوگ انجیر اور انگور کو کانٹوں والی جھاڑیوں سے نہیں چنتے ہیں۔(44) ایک اچھا آدمی اپنے دل میں باتوں کو سنبھال کر رکھتا ہے تاکی اُسکا دل اچھی چیزیں پیدا کر سکے، لیکن ایک گناہ گار آدمی اپنے دل میں ہمیشہ خراب چیز ہی رکھتا ہے۔ اِس لئے ایک گناہ گار ہمیشہ غلط کام ہی کرتا ہے۔ لوگوں کی زبان پر وہی بات آتی ہے جو انکے دلوں میں ہوتی ہے۔(45)

”تم مجھے، ’مالک، مالک،‘ کیوں پکارتے ہو، جبکہ تم میری کہی ہوئی بات پر عمل نہیں کرتے؟(46) جو کوئی بھی میرے پاس آ کر میری بات کو سنتا اور اُس پر عمل کرتا ہے،(47) وہ اُس آدمی کی طرح ہو جاتا ہے جو اپنا گھر بنا رہا ہو اور بہت گہرائی سے کھود کر اُس کی نیو پتھروں پر رکھی گئی ہو۔ جب باڑ آتی ہے تو اُس کے گھر کو بہا لے جانے کی کوشش کرتی ہے۔ اُسکا گھر نہیں بہتا کیونکہ اُس کی نیو بہت مضبوط ہے۔(48) اور جو بھی میری بات کو سن کر عمل نہیں کرتا تو وہ اُس آدمی کی طرح ہے جس نے اپنا گھر بنا نیو کھودے ہی بنا لیا ہے۔ جب باڑ آئے گی تو اُسکا گھر پوری طرح سے برباد ہو جائےگا۔“(49)